Water supply and sewerage situation of Hyderabad
اسائنمنٹ تحقیقاتی رپورٹنگ
2014
گروپ ممبرز
شہبازعلی رول نمبر: 97
شہبازعلی رول نمبر: 97
محمد حسنین رول نمبر : 66
کلاس : بی۔ایس پارٹ :3
حیدرآباد میں پینے کے پانی اور سیوریج کی صورتحال
ٹیچر: سہیل سانگی
مورخہ: 5 ۔دسمبر ۔2014
فہرست مضامین
فہرست مضامین
(الف) حیدرآباد میں پینے کے پانی کی صورتحال
۱: پانی کی موجودہ اور ماضی کی صورتحال
۲: کلوری نیشن کا عمل
۳: اہم واقعے
۴: اسٹوریز
۵: پروفائل
۶: پانی سے مرتب ہونے والے اثرات اور مسائل
(ب) حیدرآباد میں سیوریج کی صورتحال
۱: ٹی ایم اے اور واسا کی موجودہ اور ماضی کی صورتحال
۲: نکاسی آب پر ایک نظر
۱.۲: لطیف آباد
۲.۲: سٹی
۳.۲: قاسم آباد
۳: اسٹوریز
۴: اہم واقعے
۲: کلوری نیشن کا عمل
۳: اہم واقعے
۴: اسٹوریز
۵: پروفائل
۶: پانی سے مرتب ہونے والے اثرات اور مسائل
(ب) حیدرآباد میں سیوریج کی صورتحال
۱: ٹی ایم اے اور واسا کی موجودہ اور ماضی کی صورتحال
۲: نکاسی آب پر ایک نظر
۱.۲: لطیف آباد
۲.۲: سٹی
۳.۲: قاسم آباد
۳: اسٹوریز
۴: اہم واقعے
حیدرآباد میں پینے کے صاف پانی کی صورتحال
تحریر: شہباز علی
رول نمبر: 97
حیدرآباد میں پانی کی صورتحال
یوں تو کرہ ارض پر محض ایک تہائی خشکی اور دوتہائی پانی کی مقدار پائی جاتی ہے لیکن یہ پانی سمندر کا ہے جو روزمرہ کی انسانی ضروریات پوری کرنے پر قدرت نہیں رکھتا۔ایسے میں بڑھتی ہوئی آبادی ،پانی کے وسائل اور انسانی مانگ کے سبب پانی کا بحران پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالکوں میں ایک سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا چوتھا بڑا شہر حیدرآباد جسکا شمار پاکستان کے اُن علاقوں میں ہوتا ہے جہاں پانی کے بحران میں دن بہ دن اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
ہواؤں کے شہر حیدرآباد میں اس وقت چار فلٹر پلانٹ موجود ہیں، جن میں جامشورو فلٹر پلانٹ ، پریٹ آباد فلٹر پلانٹ ، ہالا ناکا فلٹر پلانٹ اور ایک فلٹر پلانٹ لطیف آباد یونٹ نمبر 4 میں واقع ہے۔ اس وقت شہر کو تقریباََ 134 ملین گیلن یومیہ پانی کی ضرورت ہے اور اسکے برعکس واسا کے پاس پانی زخیرہ کرنے و سپلائی کی گنجائش 80 ملین گیلن یومیہ پانی ہے۔مگر واسا حکام کے مطابق حیدرآباد کو اس وقت 60 ملین گیلن یومیہ پانی فراہم کیا جا رہا ہے، مگر اس میں سے کتنا پانی شہریوں کو مل رہا ہے جو کہ ایک سوالیہ نشان ہے۔اب دیکھا جائے تو 60 ملین گیلن یومیہ پانی میں سے تقریباََ 30 فیصد پانی روزانہ ٹینکر مافیا اور دیگر مافیا کی جانب سے چوری کیا جاتا ہے یعنی اب 45 ملین گیلن یومیہ پانی باقی رہ گیا اور یہ ہی نہیں اس میں سے بھی 5 فیصد پانی روزانہ لائنوں کی ٹوٹ پھوٹ باعث ضایع ہو جاتا ہے۔جس کا اعتراف واسا کے حکام نے خود کیا۔اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہو کہ کتنا پانی شہریوں کو فراہم کیا جا رہا ہے اور کتنا نہیں۔
واسا کے مطابق اس وقت شہر میں تقریباََ 30 پمپنگ اسٹیشن موجود ہیں جو کہ شہر کے تین تحصیلوں میں پانی فراہم کرتے ہیں جن میں سٹی، لطیف آباد اور قاسم آباد شامل ہیں۔جب ہم نے تمام پمپنگ اسٹیشن پر دورہ کرنے کا ارادہ کیا اور اس حوالے سے واسا کے حکام سے تمام پمپنگ اسٹیشن کی فہرست طلب کی تو انہوں نے ہمیں اپنے پمپنگ اسٹیشن کی فہرست دینے سے منع کر دیا۔یہ آپ خود ہی سمجھ گئے ہونگے کہ ہمیں پمپنگ اسٹیشن کی فہرست کیوں نہیں دی گئی؟
حال ہی میں حیدرآباد میں پانی کے بحران پر قابو پانے کے لئے واسا کی جانب سے بحالی ( Rehabilitation)
کے منصوبے کی تجویز کیلئے رواں سال جولائی کے ماہ میں صوبائی حکومت سے اس منصوبے کی درخواست کی گئی، مگر حکومت کی عدم دلچسپی کے سبب یہ منصوبہ ابھی تک صرف کاغذوں پر مشتمل ہے ۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر اس منصوبے میں حکومت عدم دلچسپی کیوں ظاہر کر رہی ہے؟
واسا 1977 میں وجود میں آیا اور1979 میں پہلا فلٹر پلانٹ نصب کیا گیا، 1991 میں دوسرا ،2005 میں تیسرا، اور 2006 میں ایک اور فلٹر پلانٹ لگوایا گیا۔جن کی کل گنجائش 80 ملین گیلن یومیہ پانی ہے جبکہ آبادی کے لحاظ سے 135 ملین گیلن یومیہ پانی کی ضرورت ہے۔ جب اسکی وجہ معلوم کی تو انہوں نے وہی بہانہ بنایا کہ بجلی کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ سے پانی کی سپلائی میں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔2007 میں سابقہ ناظم کی جانب سے 10 کروڑ روپیوں کی لاگت سے تمام اہم پمپنگ اسٹیشن کو متبادل جنیریٹرز کے بارے میں انہوں نے صرف اتنا ہی کہا کہ جنیریٹرز ہوا اور پانی سے تو چلانے سے رہے ،ان کو چلانے کیلئے ایک بھاری مقدار میں تیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر گذشتہ 12سالوں سے صوبائی حکومت کی جانب سے واسا کو فنڈنگ نہیں کی جارہی اور اس ادارے کے قیام کے وقت اسکو 10 سے 15 ملین روپے سالانہ فنڈ کئے جاتے تھے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس ادارے میں ریکوری 35 فیصد ہو اور تنخوائیں نہیں ملتی ہوں تو اس ادارے کی کارکردگی کیسی ہوگی۔
کلوری نیشن کا عمل
کلوری نیشن کے پہلے مرحلے میں سلنڈر کے زریعے پانی میں کلورین ملائی جاتی ہے ۔ پھر پانی پمپنگ اسٹیشن میں پہنچتا ہے، جہاں اس کی فراہمی کی جاتی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پانی کے آخری مرحلے میں پہنچنے کے بعد ہی پانی کو صاف کرنے و اسکے اندر موجود جراسم کو ختم کرنے کے لئے پانی میں کلورین ملائی جاتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں پانی میں کلورین ملانے کا یہ عمل پہلے ہی مرحلے میں کیا جاتاہے ، جوکہ آخری مرحلے میں ہونا چاہیے۔ اس کے سبب پانی انتہائی و کافی حد تک آلودہ ہو جاتا ہے یعنی پانی کو صاف کرنے کے بجائے اس کو پہلے ہی مرحلے میں آلودہ کر دیتے ہیں۔پھر اس کے بعد پانی کی Purification کی جاتی ہے یعنی پانی کو بڑے گڈھے میں جمع کر کے اسکے اندر موجود مٹی اور ریت کو صاف کرنے کے بعد اسکی فراہمی کی جاتی ہے۔یہ تو تھا واسا کے Purification کا عمل، اب ایک نظر نجی فلٹر پلانٹ پر ڈالتے ہیں جہاں یومیہ ایک لاکھ 30 ہزار روپے کا پانی گیلن میں بھر کر فروخت کیا جاتا ہے۔
اگر آپ سمجھتے ہیں جو پانی آپ 20 روپے کا چھوٹا اور 60 روپے کا بڑا گیلن خرید کرتے ہیں ،کیا وہ پانی مضر صحت نہیں اور کیا یہ انسانی صحت کے مطابق ہے؟ مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں چند پیسوں کی خاطر ان لوگوں نے بھی انسانی صحت سے کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ ہر 10 میں سے 9نجی فلٹر پلانٹ والے زمین کے پانی کو میٹھا بنانے کے لئے ایک بھاری مقدار مختلف کیمیکلز کی ملائی جاتی ہے، جن میں کلورین ، گنھک کا تیزاب(SulphuricAcid ) ، سوڈیم ہائیڈروآکسائیڈ اور دیگر دوسرے کیمیکلز ملائے جاتے ہیں۔اور یہ ہی نہیں اس پانی میں سوڈیم ہائیڈروآکسائیڈ کی کمی سے سبب اسکی PH7 سے کم ہوتی ہے جو کہ مضر صحت ہے۔2014 کی شروعات میں ایسوی ایشن فار ریسریچ اینڈ ڈیویلپمینٹ آف رورل ایریا جنرل سیکرٹری ڈاکٹر الہٰی بخش کے مطابق حیدرآباد میں اس وقت 50 نجی فلٹر پلانٹ موجود ہیں ، جن میں سے 38 فلٹر پلانٹ کی صورتحال بد سے بدترین ہے یعنی ان کی صفائی اور اسکے اندر موجود cartridges کو ہر دو ماہ بعد تبدیل کیا جانا چاہیے۔مگر ان فلٹر پلانٹ کے cartridges کی صورتحال دیکھ کے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے انہوں نے ان cartridges کو تبدیل کرنا مناسب ہی نہیں سمجھا اور لوگوں کو نہ زہر سرِعام فروخت کر رہے ہیں اور عوام پیٹ اور جلد کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
دورانِ تفتیش ہمارے علم میں یہ بات بھی آئی کہ چند نجی فلٹر پلانٹ مقبول برانڈ کی خالی بوتلیں خرید کر کے ان میں اپنا غیر معیاری پانی ڈال کے فروخت کیا جاتا ہے اور لوگ اس کو برانڈیڈ کمپنی کا پانی سمجھ کر خرید کرتے ہیں۔ ان غیر معیاری پانی کی بوتلوں کی شناخت ان کی پیکنگ سے باآسانی کی جاسکتی ہے۔اکثر اوقات ایسا غیر معیاری پانی عموماََ بس اسٹاپوں پر فروخت کیا جاتا ہے۔
اہم واقعات
* حال ہی میں حیسکو ( Hesco) کی جانب سے مورخہ 14 جون 2014 کو بجلی کے 2 ارب روپے کے واجبات جسکی ادائیگی 1991 سے نہیں کی گئی جسکے سبب واسا کی بجلی کاٹ دی گئی تھی ، جس میں جامشورو روڈ حیدرآباد ، ہالا ناکا ، سٹی اور پریٹ آباد کے فلٹر پلانٹ شامل تھے۔ جسکے سبب متاثرہ علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی قلت بڑھ گئی اور اسکے خلاف نہ صرف واسا کے ملازمین اور متاثرہ علاقے کے مکینوں نے پریس کلب حیدرآباد کے سامنے احتجاج کیا۔
* 16 جون کو شدید گرمی میں پانی کے سنگین بحران کے سبب شہری سڑکوں پر نکل آئے اور واسا کے دفتر کے سامنے اور سائٹ ایریا، جونیجو کالونی میں 5 گھنٹے تک دھرنے دیئے گئے، دھرنے کے باعث شہباز چوک پر ٹریفک کی آمدورفت معطل ہوگئی اور گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں اور گھنٹوں ٹریفک جام رہنے کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس موقع پر جونیجو کالونی کے مکینوں کا کہنا تھا کہ انکے علاقوں میں گذشتہ چھ ماہ سے پانی کی فراہمی معطل ہے جسکے کے باعث انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہیاور پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
* پانی کی شدید قلت کیخلاف سندھ آباد گار ایسوسی ایشن کا واسا کے دفتر کے سامنے 12 جون کو احتجاجی دھرنا دیا، اس موقع پر ان کا موقف تھا کہ کئی ہفتوں سے روہڑی کینال کی نصیر برانچ کے ٹپل کی شاخوں کھوسکی ڈسٹری ، جرکس ڈسٹری ، سانگی مائنر ، علی مائنر ، بصرہ مائنر ، بنگار مائنر ، باغو مائنر ، آئل پور مائنر ، خیر پور مائنر اور فراھو مائنر میں پانی کی عدم فراہمی کے سب چھوٹے آباد گاروں کو شدید نقصان کے پیشے نظر سڑکوں پر اُتر آئے۔
Stories;
* حال ہی میں واسا کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق حیدرآباد میں پینے کے پانی کی شدید قلت کے سبب لوگ ہائیڈرنٹ مافیا اور بازار سے پانی خرید کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔جس سے ان مافیاوں کی چاندی ہورہی ہے۔ 2007 حیدرآباد میں پینے کے پانی کے بحران پر قابو کرنے کیلئے ایک ارب 53 کروڑ 94 لاکھ روپے کی لاگت سے فلٹر پلانٹ اور زخیرہ آب کی تعمیر سمیت دو ارب روپے سے زائد کی لاگت سے واٹر سپلائی لائنوں، پمپنگ اسٹیشن اور بلک واٹر سپلائی لائن کے منصوبے مکمل کیئے تھے۔لیکن بلدیاتی نظام ختم ہوتے ہی واسا انتظامیہ کی نا اہلی اور حکومتِ سندھ کی جانب سے فنڈز کی عدم فراہمی کے باعث اربوں روپے کے پینے کے پانی کے منصوبے شہریوں کو فائدہ دینے کے بجائے مبینہ طور پر پانی سے متعلقہ خطرناک بیماریاں پھیلنے کا سبب بن رہے ہیں۔جن میں پیٹ کے امراض ، ہپاٹائٹس اور اب تو پانی میں پولیو کے جراسم بھی پائے گئے ہیں۔
* 2008-09 میں سرکاری اسپتالوں میں مریضوں اور ان کی تیمارداری کرنے کے لئے آنے والے افراد کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے واٹر فلٹر پلانٹ نصب کئے گئے تھے۔لیکن واٹر پلانٹس کی دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب وہ غیر فعال ہوگئے ہیں ۔سول اسپتال سمیت حیدرآباد کے دیگر سرکاری اسپتالوں میں پینے کے پانی کے لئے واٹر کولر تو نصب ہیں۔ مگر ان میں دستیاب پانی کی کوالٹی ایک سوالیہ نشان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سول اسپتال حیدرآباد میں نجی کمپنیوں کی غیر معیاری منرل واٹر کی بوتلیں لوگ خریدنے پر مجبور ہیں۔
پروفائل؛
سید محسن جعفری
پڑھنا لکھنا تو ہر کوئی چاہتا ہے۔مگر پڑھنے کا شوق کسی کسی شخص کو ہوتا ہے بعض لوگ پڑھنے لکھنے کے لےئے سخت محنت اور اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں، ایسی ہی ایک شخصیت سید محسن جعفری جن کا تعلق حیدرآباد سے ہے۔جنہوں نے تعلیم کو اولین ترجیح دی اور محنت کادامن تھام کرکامیابی کی سیڑھی چڑھے۔سید محسن جعفری 1965ء میں حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد ایک سرکاری ملازم تھے اور پیدائش کے چند سالوں بعد والد کا تبادلہ شہید بینظیر آباد ہو گیا اور سید محسن جعفری اپنے والدین کے ہمراہ شہید بینظیر آباد منتقل ہوگئے ،ان کا تعلق متوسط طبقے کے خاندان سے تھا، انہیں بچپن سے ہی کتابوں سے لگا و تھا اور کچھ نہ کچھ سیکھنے کے لےئے ہا تھوں میں کتاب لےئے پھرتے تھے۔ سید محسن جعفری نے ڈی ۔سی۔آئی اسکول شہید بینظیر آباد سے 1979 میں میڑک ، 1982 میں گورنمنٹ ڈگری کالج شہید بینظیر آباد سے انٹر کیا اور مزید تعلیم سے فیصیاب ہونے کیلئے واپس اپنے والدین کے ہمراہ حیدرآباد منتقل ہوگئے ۔ سید محسن جعفری جامعہ سندھ کے شعبہ کامرس سے گریجویٹ ہوئے۔
تعلیمی سلسلہ انجام کو پہنچا تو آپ کی محنت کی بدولت آپکو سرکاری ادارے ’’ واسا ‘‘ میں نوکری ملی اور آج واسا میں ڈائریکٹر آف فنانس اینڈ کمرشل کے عہدے پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ آپ نے باخوبی طریقے سے واسا کی موجودہ صورتحال میں بھی ریکوری کا کام جاری رکھا ،تاکہ پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔سید محسن جعفری کا ماننا ہے جس کے دل میں کچھ حاصل کرنے کا جذبہ و لگن ہو وہ معاشرے میں اپنا ایک مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو ہی جاتا ہے۔
Effect & Problems;
* ہوا کے بعد انسانی زندگی کا اہم جز پانی ہے۔ حیدرآباد میں پانی کے لئے ترستے علاقوں میں لطیف آباد سر فہرست ہے، 7 لاکھ کی آبادی پر مشتمل اس تعلقے میں پانی کی تلاش میں میں نکلنے والے لوگوں میں عمر کی کوئی حد نہیں ۔ لطیف آباد میں پانی کے متاثرہ علاقوں میں یونٹ نمبر 12,9,10,4 شامل ہیں، متاثرہ علاقوں کے مکینوں کے مطابق یہاں پانی پانی ہفتے میں بمشکل 3 دن آتا ہے۔ جس کے سبب ہمیں یاتو دوکانوں سے 20 روپے اور 60 روپے ادا کر کے پانی کا کین خرید کرتے ہیں یا فلٹر پلانٹ کی جانب رُوخ کرتے ہیں جہاں ایک طویل قطار میں کھڑے ہو کر پانی بھرتے ہیں۔ اگر غلطی سے پانی ہماری لائنوں میں آبھی جائے تو اُس میں سیوریج کا پانی مکس ہوتا ہے ، جس کے سبب پیٹ کے امراض، ہپاٹائٹس ، جلد کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں ۔آخر اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہاں کی عوام کے ساتھ ایسا سلوک کیوں؟
جب ہم عوام کے یہ سوالات لے کر واسا کے دفتر پہنچے تو انہوں کا موقف تھا کہ ہمارے یہاں پانی اور سیوریج کی لائنوں کے درمیان کا فاصلہ 2 سے3 فٹ ہے ، جبکہ انٹر نیشنل قوانین کے مطابق ان دونوں لائنوں کا فاصلہ 6 سے 7 فٹ ہونا چاہیے ۔کیونکہ کسی بھی قسم کی ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں سیوریج کا گندا پانی پینے کے صاف پانی سے نہ مل سکے ، اور لائنوں میں گندا پانی آنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ یہاں کی لائنیں 30 سے 40 سال قبل پرانی ہیں اور لوگوں نے غیر قانونی کنکیشن لگائے ہوئے ہیں ۔ جسکے باعث لیکج ہوتی ہے اور گندا پانی ، پینے کے صاف پانی سے مل جاتا ہے۔
حیدرآباد میں سیوریج کی صورتحال
تحریر: محمد حسنین
رول نمبر: 66
حیدرآباد کا سیوریج سسٹم
کسی بھی شہر کو خوبصورت اسکی صفائی ستھرائی اور بیماریوں سے پاک رکھنے کے لیے اسکے سیوریج سسٹم کا ٹھیک ہونا بہت ضروری ہے لیکن اگر وہی شہر گندے نالوں سے نکلا ہوا پانی سڑکوں پر جمع ہو جائے تو وہ ایک دریا کا منظر پیش کرتا ہے اور وہ شہر بیماریوں کا گھر بن جاتا ہے۔حیدرآباد شہرمیں نکاسی آب کی مسلسل روانگی کے لیے ٹی ایم اے اور واسا کے ادارے کام کرتے ہیں۔
ٹی ایم اے اور واسا کی موجودہ اور ماضی کی صورتحال:
* ٹی ایم اے: حیدرآباد کو ماضی میں بر سر اقتدار حکمرانوں نے مسائل کے امبار میں تبدیل کر دیا تھا ،سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی ،مناسب عملہ اور مشینری نہ ہونے کے باعث گلیاں کوڑا کڑکٹ سے بھری ہوئی تھی نکاسی آب کا شکستہ نظام شہریوں کے لئے اذیت کا باعث تھا۔اسی لئے2001 میں مقامی حکومتوں کا نظام ملک میں پہلی بار متعارف ہوا جسکہ تحت اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا گیا اور حیدرآبادمیں تعلقہ میونسپل ایڈمنسٹریشن کی بنیاد رکھی گئی ۔حیدرآباد کو سر سبز ،صاف ستھرا اور بیماریوں سے بچانے کے لئے حیدرآباد کوپریشن کو تین تعلقہ میونسپل ایڈمنسٹریشن ،تعلقہ لطیف آباد، تعلقہ سٹی اور تعلقہ قاسم آباد میں تقسیم کیا گیا۔
ہر دور اقتدار میں حکومت کی جانب سے سالانہ مختلف اسکیم اور پیکج نکال دئیے جاتے ہیں جیسے کہ2004 میں تعمیرِوطن کے نام سے ایک اسکیم نکالی گئی اس اسکیم میں حیدرآباد میں (LD) واٹر سپلائی اینڈ سیوریج سسٹم متعارف ہوا جس سے حیدرآباد میں 90% چھوٹے چھوٹے پمپ اسٹیشن بند کر دئیے گئے اور انکی جگہ پر تین بڑے (LD) پمپنگ اسٹیشن تعمیر کیے گئے جو پورے لطیف آباد،سٹی،قاسم آباد کے سیوریج سسٹم کو کنٹرول کرتے ہیں۔
ایڈ منسٹریٹر بلدیہ حیدرآباد قمر شیخ کے مطابق اس وقت صفائی کا عملہ 400سے ذائد ہے جو آج سے 10 سال قبل 900 کے قریب تھا جبکہ آبادی کا تناسب کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ بلدیہ حیدرآباد کو اوزی ٹی شیئر کی مد میں 6 کروڑ 40 لاکھ ملتے ہیں جبکہ محکمہ تنخواہوں اور پینشن کی مد میں 5 کڑوڑ 90 لاکھ روپے کی ادائیگی کر رہا ہے ۔
* واسا: حیدرآبادشہرمیں نکاسی آب کو بہتر بنانے کے لیے 1977 میں واسا کی بنیاد رکھی گئی۔ اس وقت واسا کو شہر میں نکاسی آب کو بہتر بنانے کے لیے سالانہ15 سے 10 ملین روپے حکومتی بجٹ سے مختص تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ آبادی کے بھرنے سے اب واسا کو سالانہ50 ملین روپے کی رقم درکار ہے۔ واسا میں اس وقت 3500 ملازمین کام کر رہے ہیں ، جن کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے واسا کے لئے کوئی مختص کردہ بجٹ نہیں دیا جاتا جس سے واسا شہر میں کوئی ترقیاتی کام کرواسکے۔
حیدرآباد کی نکاسی آب پر ایک نظر
لطیف آباد:
لطیف آباد میں یومیہ35 ملین گیلن گندا پانی اخراج ہوتا ہے جو پورے لطیف آباد سے چھوٹے چھوٹے پمپنگ اسٹیشن سے پمپ ہو کر لطیف آباد نمبر 9 مین دسپوزل پمپنگ اسٹیشن میں دو بڑے ٹینک میں جمع ہوتا ہے یہاں سے یہ گندا پانی (SSTP) یعنی سیوریج ساؤترن ٹریٹمنٹ پلانٹ میں پمپ کر دیا جاتا ہے یہاں پر اس پانی کی صفائی کا عمل شروع کیا جاتا ہے ۔پانی کو صاف کرنے کی لیے سب سے پہلے اسکریننگ کے مرحلے سے گزنا پٹرتا ہے اس مرحلے میں بڑی بڑی چیزیں جیسے بچوں کے دائپر ،پلاسٹک کی تھیلی ،ٹوٹی ہوئی کانچ کی بوتلیں وغیرہ جیسی چیزوں کو نکالا جاتا ہے۔دوسرے مرحلے میں پانی کو ایک دوسرے ٹینک میں ڈالا جاتا ہے یہاں پر انسانی فضلات کو پانی سے الگ کیا جاتا ہے۔تیسرے مرحلے میں ہوا کو پانی میں پریشر سے بھرا جاتا ہے جس سے پانی میں موجود بیکٹیریا چھوٹے چھوٹے ذرات میں ٹو ٹ جاتا ہے اور پھر پانی کو ایک صاف ٹینک میں پمپ کیا جاتا ہے اور کیمیکل کی مدد سے مزید بیکٹیریا کو ختم کیا جاتا ہے اس آخری مر حلے میں پانی ہر نقصان دہ جراثیم سے صاف ہو جاتا ہے۔ان سب مرحلوں کے بعد ہی پانی کو دریا میں ڈالا جاتا ہے تا کہ پانی پھر سے پینے کے قابل ہو سکے یہ سارا عمل بے حد ضروری ہے۔
*حیدرآباد سٹی :
اگست 2012 میں حیدرآباد سٹی تلسی داس پمپنگ اسٹیشن کے سیوریج کے پانی کا ٹیسٹ کیا گیا جس میں پولیو وایئرس پایا گیا ۔ دسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر اسلم پیچوہو کی جانب سے میٹنگ بلائی گئی اس اجلاس میں صحت کے حکام پر تنقید کی گئی کہ 120 پولیو مہم چلانے کے بعد بھی ابھی تک ہم پولیو وایئرس کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے ہیں اب تک دو درجن سے زیادہ لوگ پولیو وایئرس کاشکار ہوئے ہیں یہ شہریوں کے لیے ایک خطرناک صورتحال ہے۔
حیدرآباد سٹی تلسی داس پمپنگ اسٹیشن کے ایس ڈی او کا کہنا ہے کہ حیدرآباد سٹی میں نکاسی آب کو برقرار رکھنے کے لیے دو بڑی 125 ہوس پاور کی موٹرز کے ذریعے یومیہ 28 ملین گیلن پانی اخراج کرتے ہیں اور ایمرجنسی یا لائٹ نہ ہونے کی صورت میں جنریٹر بھی استعمال کرتے ہیں کیونکہ اگر ایک گھنٹہ یہ پمپ نہ چلیں تو پورے سٹی کے نشیبی علاقے جیسے مولا علی قدم گاہ اور سرفراز چاڑی پر ایک سے ڈیڑھ فٹ پانی جمع ہو جائے گا اسکے علاوہ سٹی میں پرانی اور ٹوٹی سیوریج کی لائنیں ہٹا کر نئی اور بڑی لائنیں ڈالی گئی ہیں جس میں قاضی قیوم روڈ اور سرفراز روڈ پر40 انچ چوڑی اور پٹھان روڈ پر56 انچ چوڑی لئنیں ڈالی ہیں۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جب میں تلسی داس پمپنگ اسٹیشن پر جارہا تھا تو قاضی قیوم روڈ پر جہاں40 انچ چوڑی نئی لائین ڈالی گئی ہے اس روڈ کے اعتاف پر تقریباََ ایک فٹ گندا پانی جمع تھا تو جب میں نے ایس ڈی او صاحب سے پوچھا کہ اتنے انتظامات کرنے کے بعد بھی یہ پانی کیوں جمع ہے تو آگے سے کوئی جواب نہ ملا۔۔۔۔؟
*قاسم آباد:
قاسم آباد کی بات کریں تو قاسم آباد میں یومیہ15 ملین گیلن پانی اخراج ہوتا ہے اور یہ پانی بنا کسی کلورینیشن کے سیدھا دریا سندھ میں بہا دیا جاتا ہے یہ بیماریوں اور جراثیم سے لیس پانی صاف پانی میں مل جاتا ہے جس سے کئی قسم کی بیماریاں جیسے ڈائریا ،پولیو، ڈینگی اور ہیپاٹائٹس پیدا ہوتی ہیں جو انسانی جان کے لئے خطرناک ہیں اور سوچیے ملک میں کم ہوتی انسانی اوسط عمرکی ایک وجہ یہ گندا پانی بھی ہے جو انسانوں کو پلایا جارہے ۔
اسٹوریز
* حیدرآباد کے مختلف علاقوں میں بھی سیوریج کی لائینوں کا برا حال ہے جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی لائنیں جہاں سے یہ گندا پانی زمین کے اندر بہتا رہتا ہے ۔جس سے لوگوں کی بنائی گئی عالیشان عمارتوں کی بنیادوں کو اندر سے آہستہ آہستہ کھوکھلا کرتا رہتا ہیاور دیواروں پر ہمیشہ سیم رہتی ہے۔جسکی ایک مثال لطیف آباد نمبر ۱۱ کا رہائشی علاقہ ہے جو اس مثلے سے دو چار ہے وہاں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ہمارے گھروں میں فرش سے گندا پانی رستا ہے ،گھر کا سارا فرش ہمیں ہر سال نیا دلوانا پڑتا ہے کیونکہ پانی نکلنے کی وجہ سے فرش اندر دھس جاتا ہے۔
* حیدرآباد میں ایک نئی قسم کی سبزی مافیہ نے بھی جنم لے لیا ہے،محمدی موڑ کے کے قریب کاشت کاروں نے نالوں میں موٹریں لگا کر انسانی فضلات سے بھری گندا پانی زمینوں پر کاشت کاری کے لئے استعمال کر رہے ہیں ان نالوں کے پانی میں مختلف قسم کے بیماریوں سے جراثیم اور ہیوی میٹل موجودہوتے ہیں جو انسانی صحت کے لئے مضر ہیں کیونکہ انکی کذافت اضافی مخصوص کشش ثقل سے چار گنا ذیادہ ہوتی ہے۔یہ خطرناک ہیوی میٹل غیر ضروری طریقے سے ہمارے جسم میں ان گندے پانی سے اگائی جانے والی سبزیوں کے زریعے اندر داخل ہو جاتے ہیں جو کینسر کا سبب بنتے ہیں۔گندے پانی سے اگائی جانے والی سبزیاں حیدرآباد لطیف آباد نمبر8,11,12 کے مشہور بازاروں میں فروخت ہورہی ہیںیہ واسا ملازمین کی نا اہلی ہے۔
اہم واقعے
چند روز قبل واسا کے ملازمین نے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے لئے احتجاجاََ شہر کی نکاسی آب کا پمپنگ اسٹیشن بند کر دیا تھا ۔ جس کے سبب شہر میں سیوریج کا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا شہر کی متعدد سڑکوں پر سیوریج کے گندے پانی کے سبب سے جہاں اربوں روپے مالیت کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں تو وہیں ٹیریفک کی دورانی میں خلل پیدا ہو رہا ہے۔
ایکسپو سینٹر سمیت مختلف علاقوں میں سیوریج کا پانی جمع ہونے کی وجہ سے ان علاقوں کے رہائشیوں کے لئے اپنے گھروں سے نکلنا مشکل ہو گیا تھا جبکہ صوبائی وزیر بلدیات شرجیل میمن کی جانب سے حیدرآباد سمیت سندھ بھر میں ایک ماہ کی صفائی مہم کو تین ہفتے گزرنے کے باوجود تا حال شہر کا ۲۰ فیصد حصہ بھی مکمل نہیں ہو سکا ۔سابقہ ضلع حکومت کی جانب سے حیدرآباد میں صنعت وتجارت کے فروغ کے لئے نورانی بستی پھلیلی میں صوبے کا دوسرا ایکسپو سینٹر تعمیرکریا گیا تھا جو چند سال کے بعد ہی چاروں اطراف سیوریج کا پانی جمع ہونے کی وجہ سے غیر فعال ہو چکا ہے اب تو ایکسپو سینٹر کے اطراف میں 10سے15 فٹ چوڑی سڑکیں بھی 2 سے 3 فٹ تک سیوریج کے پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں اور علاق مکینوں کے لئے ان سڑکوں سے گذرنامحا ل ہو گیا ہے۔
اسی طرح گدو چوک پر بھی سیوریج کا پانی جمع ہونے سے کروڑوں روپے لاگت سے بنائی گئی سڑکوں میں دو سے تین فٹ گڑھے پڑ چکے ہپیں جہاں ہر وقت ٹریفک جام ہوتا معمول بن چکا ہے۔گدو چوک ،لطیف آباد ، سٹی ، کوٹری آنے جانے کا راستہ ہے جہاں سے روزانہ ہزاروں افراد گزرتے ہیں لیکن ڈویثرنل اور ضلع انتظامیہ کی نا اہلی کے باعث شہری اذیت کی ذندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔تلسی داس پمپنگ اسٹیشن پر اپنی انتظامیہ پر عائد ہو گی۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے ہے کہ ہر 2 سے 3 ماہ بعد واسا کے ملازمین اپنی تنخواہوں کے حصول کے لئے سڑکوں پر نکل کت احتجاج کرتے ہیں جس کے بعد نکاسی اور فراہمی آب کا نظام بند ہوتا ہے تب کہی جا کر ارباب
اختیار نوٹس لے کر رقوم جاری کرتے ہیں تو ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی ہوتی ہے ا ور اس سارے عمل میں حیدرآباد کے شہریوں کو شدید اذیت سے دو چار ہونا پڑتا ہے ۔واسا کے ایم ڈی سلیم الدین کا کہنا ہے کہ واسا ملازمین کی فروری سے تنخواہیں ادا نہیں ہوئی ہیں اور تنخواہوں کی مد میں 18کروڑ روپے ملازمین کو ادا کرنے ہیں لیکن واسا کے پاس اتنی رقم موجود نہیں ہے۔انھو ں نے کہا کہ حکومتِ سندھ کو ۱۱۷ ملین روپے جاری کرنے کے لئے درخواست ارسال کی ہوئی ہے اگر وہ منظور ہو جئے تو ملازمین کی تنخواہوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
واسا ملازمین کی تنخواہوں کا مسئلہ تو کچھ مہینوں سے ہی سامنے آیا ہے لیکن حیدرآباد میں ہمیشہ سے یہی
مسئلہ رہا ہیکہ اگر حیدرآباد میں تھوڑی سی بارش ہو جائے تو حیدرآباد کے بہت سے نشیبی علاقے ذیر آب آجاتے ہیں جیسے کہ2006 میں ہوئی بارش نے لطیف آباد نمبر4,11,12,2 میں تباہی مچادی تھی گھروں کے اندر 5 فٹ سے زائد پانے جمع تھا اور لوگوں کا لاکھوں روپے مالیت کا قیمتی سامان بھی اس بارش کی نظر ہو گیااور کشتیوں کی مدد سے لوگوں کو دوسرے مکامات تک پہنچایا گیا لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے،یہ بھی ایک خراب سیوریج سسٹم کی وجہ سے سامنے آیا۔
Comments
Post a Comment