حیدرآباد میں ملاوٹ کے کارخانے


Sir I have tried alot to beautify munawar's article....since Morning his article Doesn't have such facts & Figures thats proves that how many peoples involve in such business, where is the industries of such business, & when the health inspectors   visit this place....how many this industries was closed during 2012 chappa... Shahbaz Ali 
Article by Munawar Ali Ansari 

Sep 14, 2014 at 10:20 AM


حیدرآباد میں مصالحہ جات میں ملاوٹ
یا
حیدرآباد میں ملاوٹ کے کارخانے
 منور انصاری
ترقی کے انحصار سے صحت مند عوام پر اور عوامی صحت کے انحصار کھانے، پینے کی معیاری ایشیاء پر ہوتا ہے۔اسی لئے دنیا بھر میں کھانے پینے کی ایشیاء پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا بیشتر ممالک میں قوانین اتنے سخت ہیں کہ ملاوٹی ایشیاء کا تصور ہی ختم ہو گیا ہے۔لیکن اس کے برعکس پاکستان میں یہاں کھانے پینے کی کوئی چیز ایسی نہیں جس میں ملاوٹ نہ کی جاتی ہو۔ بدقسمتی سے ہمارا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ ایک عام سی بات ہے اور ایسا نہیں ہے۔
پاکستان کے دیگر بڑے شہروں کی طرح حیدرآباد میں بھی ملاوٹ نے زور پکڑ لیا ہے یہاں باقاعدہ طور پر کھانے پینے کی ایشیاء کے ملاوٹ کے کارخانے بنے ہوئے ہیں جہاں بڑے پیمانے پرخواتین،بچے یہاں پر لکڑی اور چاول کے چھلکے کو پیسنے کے بعد مصالحوں میں ملایا جاتا ہے جو نہ صرف حیدرآباد میں ملاوٹ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے بلکہ کراچی اور ملک کے دیگر بڑے شہروں میں موجود نامور کمپنیوں کو بھی بیچ دیا جاتا ہے جنہیں چمکتے دمکتے ڈبوں میں پیک کر کے بیچ دیا جاتا ہے۔۔ اس جان لیوا کام کی انہیں 300 سے 400 اْجرت روزانہ ملتی ہے۔ حیدرآباد میں تقریباََ 40 کارخانے ایسے موجود ہیں جہاں پر اس کچرے کو پیسا جاتا ہے اور نہ صرف کھانے پینے کی ایشیاء میں یہ ملاوٹ کی جاتی ہے بلکہ ہمارے یہاں تو بکرے کے گوشت کے نام پر کتے کا گوشت فروخت کیا جاتا ہے جس کا انکشاف 2012میں ہوٹل، ذبح خانے میں پڑے جانے والے چھاپے کے نتائج میں ہوا۔اور یہ ہی نہیں ڈبے والے دودھ کو جسے اکثریت عوام خالص سمجھتی ہے حقیقت تو یہ ہے کہ اس دودھ میں کھاد، Hair Removing Cream، اور سوکھے دودھ کی ملاوٹ ان میں کی جاتی ہے اور یہی دودھ اکثریت عوام جراثیم و ملاوت سے پاک سمجھ کر نہ صرف اپنے بچوں کو بلکہ خود بھی یہی دودھ استعمال کرتے ہیں۔ 
          ملاوٹ کے لئے جس چیز کا استعمال ہوتا ہے وہ اصل میں دال اور اناج کی مِلوں کا کچرا ہوتا ہے۔یہ کچرا کئی اقسام کا ہوتا ہے جسے مختلف چیزوں میں ملایا جاتا ہے۔ جسے"چکن فیڈ"کے نام سے  پولٹری فارم کے مالکان کو بیچ دیا جاتا وہ اصل میں ایک پیلے رنگ کی مٹی جو کہ  دال کا کچرا ہوتا ہے اسے خون میں ملاکر سْکھایا جاتا ہے پھر ان ڈلوں کو مچھلی کے کچرے کے ساتھ ملا کر اس کی کٹائی کی جاتی ہے جو کہ نہ صرف  مرغیوں کے لئے مضر صحت کا باعث ہوتا ہے بلکہ انسان کو کئی مختلف امراض میں مبطلہ کر دیتا ہے۔
        جہاں قانون بنانے والے لا تعلق اور قانون پر عمل کرانے والے بے ایمان ہوں وہا ں قانون توڑنے والوں کی دیدہ دلیری اتنی بڑھ جاتی ہے وہ صرف ملاوٹ والی ایشیاء ہی نہیں بلکہ دودھ، گوشت اوردیگر روز مرہ کی استعمال ہونے والی ایشیاء میں ملاوٹ میں اضافہ ہوتا نظر آتا ہے۔لہذا محکمہ صحت اور حکمرانوں کو چاہیے کہ جو عناصر اس کام میں ملوث ہیں ان ک خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے جو عوام کی صحت سے سمجھوتہ کئے جارہے ہیں تاکہ یہ لوگ واپس ایسے کسی غیر قانونی کام میں شامل نہ ہوسکیں 




Comments

Popular Posts