تیلیوں کا پیشہ اور روایات : مزنہ رئیس Mizna Raees
تیلیوں کا پیشہ اور روایات
مزنہ رئیس الدین

تیلیوں سے مراد یہ نہیں کہ وہ تیل میں نہا کر رہتے یا تیل لے کر گھومتے ہیں ۔ یہ ایک قسم کی ذات ہے تیلی لوگ تقریبا 40, 50سال قبل انڈیا سے پاکستان ہجرت کر کے آئے ۔ ان کا آبائی علاقہ باڑمیئر ہے۔
تیلیوں کا رہن سہن ، ، زبان ، چال چلن روایات کچھ الگ قسم کی ہی ہیں ۔ یہ لوگ سالوں سے تیل کا کاروبار کرتے آرہے ہیں اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ان کے کاروبار میں مردوں کے ساتھ ان کی عورتیں بھی شامل ہیں۔ مرد حضرات اگر تیل کی گھانیوں میں کام کرتے ہیں تو خواتین بھی کم نہیں وہ بھی گھر بیٹھ کر مختلف قسم کی جڑی بوٹیوں سے تیل بنا کر فروخت کرتی ہیں ۔ گھانی سے مراد جس جگہ یہ کام سر انجام دیا جاتاہے اس کو گھانی کہا جاتاہے۔
گھانی میں تیل نکالنے کے لئے مختلف قسم کی مشینیں لگی ہوئی ہیں جن سے مختلف قسم کے تیل نکالے جاتے ہیں ۔ ان چکی نماں مشینوں میں سرسوں ، جامھے ، دھنیہ ،ناریل،وغیرہ کو ڈال کر پیسا جاتاہے اور پھر اس میں مختلف قسم کی جڑی بوٹیوں سے تیل بنایا جاتاہے۔ الگ الگ جگہوں پر الگ الگ طریقوں سے بھی یہ کام کیا جاتاہے جیسا کہ شکار پور میں لکڑی کی چکی نما قسم کی مشین سے بیل کو باندھ کر اور اس کو گھما کر بھی تیل نکالا جاتاہے ہاں البتہ اس کام میں بیل کا بھی تیل نکل جاتاہے یہ الگ بات ہے۔
تیلیوں کی روایات اور رہن سہن ، بھی بالکل مختلف اور عجیب قسم کا ہے۔ خواتین انتہائی قسم کی گھریلو ہیں۔ پڑھنے لکھنے کا بھی رجحان بالکل نہیں پایاجاتا۔ مرد حضرات پینٹ شرٹ کے لباس کو بالکل بھی زیب تن نہیں کرتے ۔سادہ قمیض شلور ہی زیب تن کیا جاتا ہے جبکہ خواتین فراک کے ساتھ چوڑی دار پاجامہ والے لباس کو زیب تن کر تی ہیں پھر 80سالہ بڑھیا ہی کیوں نہ ہو وہ بھی اپنی اس روایت کو مرتے دم تک قائم رکھتی ہے ۔
ان کی زبان بھی کافی دلچسپ ہوتی ہے ہاں سامنے والے کو سمجھنا کافی مشکل ہوتاہے ’’پانی کو پوئی ‘‘ چار پائی کو ماچا اور ساس کو ہاؤ بول کر پکارا جاتاہے ۔ ایک خاص روایت یہ بھی ہے کہ خواتین مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کے سامنے بھی گھونگھٹ ڈال کر آتی ہیں ۔
دیکھا جائے تو یہ پیشہ اب کافی حد تک ختم ہوتا جا رہا ہے اور گھانیوں کا رجحان بھی کافی حد تک کم ہو گیا ہے کیونکہ اب اس جدید دور میں تیل کی بڑی بڑی فیکٹریوں نے گھانی کی جگہ لے لی ہے۔
ان تلوں میں تیل نہیں جیسی مشہور کہاوت تیل کی گھانیوں کے لئے استعمال کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ قول تیلیوں کا ہے کے یہ کاروبار اب زیاد ہ نہیں چلتا مگر تیلی ہونے کی حیثیت سے وہ یہ ختم بھی نہیں کر سکتے ان کا معاشرہ بہ طور تیلی ہی ان کا اجاگر رکھتا ہے اور وہ تیل بنا کر بیچنے پر اور بہ طور
تیلی ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
تیلیوں کی روایات اور رہن سہن ، بھی بالکل مختلف اور عجیب قسم کا ہے۔ خواتین انتہائی قسم کی گھریلو ہیں۔ پڑھنے لکھنے کا بھی رجحان بالکل نہیں پایاجاتا۔ مرد حضرات پینٹ شرٹ کے لباس کو بالکل بھی زیب تن نہیں کرتے ۔سادہ قمیض شلور ہی زیب تن کیا جاتا ہے جبکہ خواتین فراک کے ساتھ چوڑی دار پاجامہ والے لباس کو زیب تن کر تی ہیں پھر 80سالہ بڑھیا ہی کیوں نہ ہو وہ بھی اپنی اس روایت کو مرتے دم تک قائم رکھتی ہے ۔
ان کی زبان بھی کافی دلچسپ ہوتی ہے ہاں سامنے والے کو سمجھنا کافی مشکل ہوتاہے ’’پانی کو پوئی ‘‘ چار پائی کو ماچا اور ساس کو ہاؤ بول کر پکارا جاتاہے ۔ ایک خاص روایت یہ بھی ہے کہ خواتین مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کے سامنے بھی گھونگھٹ ڈال کر آتی ہیں ۔
دیکھا جائے تو یہ پیشہ اب کافی حد تک ختم ہوتا جا رہا ہے اور گھانیوں کا رجحان بھی کافی حد تک کم ہو گیا ہے کیونکہ اب اس جدید دور میں تیل کی بڑی بڑی فیکٹریوں نے گھانی کی جگہ لے لی ہے۔
ان تلوں میں تیل نہیں جیسی مشہور کہاوت تیل کی گھانیوں کے لئے استعمال کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ قول تیلیوں کا ہے کے یہ کاروبار اب زیاد ہ نہیں چلتا مگر تیلی ہونے کی حیثیت سے وہ یہ ختم بھی نہیں کر سکتے ان کا معاشرہ بہ طور تیلی ہی ان کا اجاگر رکھتا ہے اور وہ تیل بنا کر بیچنے پر اور بہ طور
تیلی ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
Practical work carried out under supervision of Sir Sohail Sangi
at Department of Media & Communication, University of Sindh
Comments
Post a Comment